*#غازی*
⚔️⚔️🔪🦅🦅
*قسط_نمبر 1*
کھٹمنڈو ائرپورٹ پر رائل نیپال ائیر لائنز کے جہاز نے ٹھیک چار بجے رن وے کیطرف بڑھنا شروع کیا. میں کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا. اس وقت میں حقیقتاً ڈرا ہوا تھا
خوف کی لہریں میرے آر پار ہو رہی تھیں. میری نظریں ائیر پورٹ بلڈنک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لگی ہوئی تھی. ہر لمہے یہی خیال گزرتا کہ اب پولیس کی جیپ نمودار ہو گی. پائلٹ جہاز کو نیکسی وے پر ہی روک لے گا. اور پولیس مجھے گرفتار کر کے لے جاے گی
اگر چہ ایسے مرحلے مجھ پر پہلے بھی کئی بار گزر چکے تھے لیکن ساڑھے تین سال زندگی اور موت کا کھیل کھیلتے کھیلتے میں ذہنی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا. اور اب تو بات یہاں تک آن پہنچی تھی کہ آزادی اپنا گھر اپنا وطن اور گھر والے اور دوسری طرف تھرڈ ڈگری ٹارچر کے ساتھ ذلت کے ساتھ موت اور ان دونوں کے بیچ صرف چند منٹوں کا فرق تھا. قسمت نے زندگی کی بازی کھیلتے ہوے مجھے تین اکے دیئے. لیکن ہر بار تو تین اکے نہیں ملتے.
اب تو یہ آخری داؤ تھا. اگر بازی الٹی پڑی تو...
خوف کی لہر نے مجھے جھٹکا دیا. میں نے آنکھیں بند کر ل
اور سب کچھ اس قادر مطلق پر چھوڑ دیا.
جس کی طاقت اور قدرت کی کوئی حد نہیں.
انسان اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتا ہے. انسانی جدوجہد کی ایک حد ہوتی ہے. اور اس کے بعد وہ محض مجبور اور لاچار ہوتا ہے. اور اپنے رب ذوالجلال کے کرم کا طلبگار ہوتا ہے. مجھ پر ایک غنودگی سی چھا گئی تھی. اچانک ائیر ہوسٹس کی مدھر آواز مجھے غنودگی سے باہر لے آئی. سیفٹی بیلٹ کھولنے اور سگریٹ پینے کی اجازت مل گئی تھی.
میں نے ایک سگریٹ نکال کر سلگایا اور ایک لمبا کش لیاجہاز ہمالیہ کی برف پوش چوٹیوں کو نیچے چھوڑتا ہوا بلند ہو رہا تھا.
ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی دائیں طرف دکھائی دے رہی تھی
جہاز کے اکثر مسافر ان چوٹیوں کو دیکھنے کے لیے اس طرف والی کھڑکیوں کے پاس آ چکے تھے. لیکن میرا ذہن سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولوں کے ساتھ ماضی کی طرف جا رہا تھا.
ساڑھے تین سال یعنی 1185 دن اور 1185 دنوں میں میرے ساتھ گزرے ہوے ان گن واقعات ایک تیز رفتار فلم کی طرح میرے ذہن کے پردے سے گزر گئے . جلد ہی پہاڑ ختم ہو گئے ائیر ہوسٹس نے بتایا کہ ہم بنگلا دیش کے اوپر سے گزر رہے ہیں. اور کرنا فلی کا ڈیلٹا ہمارے نیچے ہے.
درجنوں پاٹوں میں منقسم ڈیلٹا میلوں تک پھیلا ہوا تھا. اور شام کے ڈھلتے ہوے سورج کی کرنوں نے دریائے کرنافلی کی ان شاخوں میں آگ سی لگا رکھی تھی.
شاید کسی ایسے ہی دلفریب منظر نے شیخ مجیب الرحمٰن کو مشرقی پاکستان کو علیحدہ کر بنگلہ دیش کے لیے ہمار دیش تمار دیش سنار دیش کہنے پر مجبور کر دیا تھا.
یہ ایک ایسا فریب نظر تھا جس نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کو دولخت کر دیا تھا.
اس وقت بنگلہ دیش بنے کئی سال بیت چکے تھے. لیکن مشرقی پاکستان کے لیے لفظ بنگلہ دیش میرے ذہن کے کسی کونے میں بھی فٹ نہیں ہوتا تھا اور آج بھی یہی حال ہے.
چاہے کتنوں کو ہی برا لگے لیکن میں اس خطے کو مشرقی پاکستان ہی کہتا ہوں اور کہتا رہوں گا.
ہمارے جہاز کی منزل بنکاک تھی. اور مجھے بنکاک کے پاکستانی سفارت خانے سے کراچی کا ٹکٹ لینا تھا. یہ واقعہ اچانک میرے ذہن میں آ گیا. اور یہ میرے ساتھ بیتے واقعات کا حصہ تھا جسے میں نے آپ کے سامنے بیان کر دیا. میرا یہ سفر شروع کیسے ہوا اب میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں.
مجھے افغان ائر کے جہاز پر بھی بھیجا جا سکتا تھا. جو uno نے پاکستانی مہاجروں کے لیے ہائر کیے تھے. لیکن افغان ائر کے جہاز دہلی ہوائی اڈے پر ری فلنگ کے لیے اترتے تھے. اس دوران سی بی آئی اور فوجی جاسوس طیارے میں آ کر مسافروں کو چیک کرتے تھے. اگر ان میں کوئی وانٹیڈ ہوتا تو اسے جہاز سے اتار کر اپنے ساتھ لے جاتے تھے. میرا نام تو ان کے مطلوبہ افراد میں نمایاں تھا. اور پھر کھٹمنڈو میں بھارتی سفارت خانہ میری اصلیت کا علم ہو جانے پر میری نقل و حرکت پر گہری نگرانی رکھتا تھا. اس لیے مجھے کھٹمنڈو ائرپورٹ پر چین کی سفارتی گاڑی پر لایا گیا تھا. امیگریشن کے کاغذات بھی میری غیر موجودگی میں انہی کی نگرانی میں مکمل ہوے.
اور جہاز کی عین روانگی کے وقت جب جہاز کی سیڑھیاں ہٹائی جا رہی تھی. سفارتی گاڑی جہاز کے قریب آئ اور مجھے جہاز میں بٹھا دیا گیا.
ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود جب تک جہاز نے خاصی پرواز نہ کر لی. میرے دماغ میں اندیشے سر اٹھاتے رہے. جہاز میں مسافر بہت کم تھے اور میں جہازکی نسبتاً خالی سیٹوں کے درمیان ایک سیٹ پر بیٹھا تھا. بنکاک تک کا سفر ساڑھے چھے گھنٹوں کا تھا. ذہن نے ماضی میں چھلانگ لگائی اور آکر جہاں رکا وہ 16 دسمبر 1971 کا منحوس دن تھا.
میں تربیلا ڈیم بنانے والی کمپنی( T J V) ( تربیلہ جوائنٹ ونچر) میں اسسٹنٹ پبلک ریلیشنز آفیسر تھا. معقول تنخواہ تھی اور کمپنی نے بہت سی سہولیات دے رکھی تھی. اور زندگی نہایت سکون سے گزر رہی تھی.
بھارت سے ہماری جنگ جاری تھی. ہمارے ذرائع ابلاغ کامیابی کے بڑے بڑے دعوے کر رہے تھے.
کبھی چینی امداد تو کبھی امریکی کے چھٹے بحری بیڑے کی آمد کے مژدے سناے جا رہے تھے. Uno میں
ہزاروں سال تک جنگ جاری رکھنے کے عہد کیے جا رہے تھے. جنگ بند کرنے کے لیے پولینڈ کی قرارداد جسے عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی ہمارے وفد کے سربراہ نے پھاڑ دی تھی. یہ باآور کرایا جا رہا تھا کہ بھارت آئندہ چند دنوں تک گھٹنے ٹیک دے گا. اور جنگ بندی کے عوض مقبوضہ کشمیر ہمیں طشتری میں رکھ کر پیش کر دے گا. جنرل نیازی ان دنوں مشرقی کمان کے سربراہ تھے.
ان کے اس دعوے کی بڑی تشہیر کی گئی کہ بھارتی افواج کو واپس ان کی سرحدوں میں دھکیل دیا گیا ہے.
اور بھارتی ٹینکس ان کی لاشوں پر سے گزر کر ہی ڈھاکہ میں داخل ہو سکتے ہیں. ان خوش کن دعوؤں پر بہلاے گے دل پر بی بی سی کی یہ خبر بجلی بن کر گری کہ16 دسمبر 1971 کو پاکستانی فوج ہتھیار ڈالنے کا معاہدہ کر چکی ہے. اور اس رسم کی ادائیگی کے لیےجنرل نیازی نے اپنے ہم منصب بھارتی جنرل اروڑہ کو ڈھاکہ آنے کی دعوت دی ہے
یقین جانیے پہلے تو اس خبر کو دل ماننے کے لیے تیار نہیں ہوا تھا کہ مسلمان ہندوؤں کے آگے ہتھیار ڈالیں گے.
محمد بن قاسم کا چند ہزار سے راجہ داہر کو شکست دینا. محمود احمد غزنوی کا سومنات پر 17 حملے کرنا پھر فتح کرکے ہیرے جواہرات ٹھکڑا کر بت کو توڑ کر بت شکن کہلانا. احمد شاہ ابدالی کا راجہ جے چند کو شکست دینا. اور ہر بار اس سے اپنے پاؤں دھلوا کر اسے چھوڑ دینا. مدینہ کی گلیوں سے مجاھدین کا نکلنا اور ساری دنیا پر چھا جانا.
جس قوم کی ماؤں نے خالد بن ولید موسیٰ بن نصیر طارق بن زیاد محمد بن قاسم قتیبہ بن مسلم نورالدین زنگی صلاح الدین ایوبی عمادالدین زنگی محمود احمد غزنوی احمد شاہ ابدالی شیر شاہ سوری اور ٹیپو سلطان جیسے جرنیل پیدا کیے جن کے آگے ساری دنیا گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی.
جن کی دہشت سے دنیا کانپتی تھی. آج اسی قوم کی سب سے بڑی سلطنت میں مسلمانوں کی سب بڑی فوج اس قوم کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئی جس پر مسلمانوں نے 1400 سال حکومت کی. اور 1400 سالوں کی کامیابی کے بعد یہ یکدم ناکامی جس نے پاکستان کو دولخت کر دیا. ہضم نہیں ہو رہی تھی. ناکامی بلا جواز نہ تھی ہمیشہ کی طرح یہاں بھی غداروں نے اپنا کام دکھایا. بقول شاعر
جعفر از بنگال صادق از دکن
ننگ دیں ننگ قوم ننگ وطن
مسلمانوں کو جب بھی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا محض غداروں کی وجہ سے کرنا پڑا تھا. 1971میں تو مشرقی پاکستان کی بھولی بھالی عوام کو غدار لیڈروں نے کچھ ایسا بہکا دیا تھا کہ وہ مغربی پاکستان زکے لوگوں کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھنے لگےتھے.....
*جاری ہے*
.دوسری قسط کل بھیجی۔ جائے گی
انشاء اللہ
Comments
Post a Comment