غازی قسط نمبر 3 * *
اس کے علاوہ بریگیڈیئر اور اس سے اوپر کے رینک کے افسر جو رائٹنگ پیڈ یوز کرتے ہیں وہ اگلا صفحہ پھاڑ کر پھینک دیتے ہیں تاکہ لکھتے وقت پینسل کے دباؤ پڑھنے سے جو تحریر دوسرے صفحے پر منتقل ہو جاتی ہے وہ کسی کے ہاتھ نہ لگے عموماً یہ افسر اس صفحہ کے دو یا تین ٹکڑے کر کے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں اور ردی کی وہ ٹوکری ہمارے لیے کسی خزانہ سے کم نہیں ہوتی. میرے ذمے یہ کاربن اور ردی کی ٹوکری میں پھنیکے ہوئے پیپر حاصل کرنا تھے چاہے اس کے لیے کوئی بھی طریقہ یوز کرنا پڑے. اگر کوئی ملازم ایک دفعہ ہاتھ لگ جائے تو پھر اس سے کسی بھی قسم کی خدمات لینا مشکل نہیں ہوتا. کچھ لوگ شاید اس بات کو برا جانیں کہ ناجائز طریقے سے کوئی چیز حاصل کرنا غلط ہے مگر ملکی سلامتی کے لیے ہر طریقہ آزمایا جاتا ہے چاہے وہ جائز ہو یا ناجائز.
یہ بات بڑی مضحکہ خیز تھی کہ برطانیہ میں پاکستانی اور بھارتی حساس اداروں کے افراد کی تربیت ایک ہی کلاس میں ہوتی تھی اس لیے دونوں کی تربیت میں کوئی فرق نہیں ہوتا تھا بلکل ایسے ہی جیسے آج کل امریکہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں کرتا ہے اسکا اندرونی مقصد ہماری افواج کی صلاحیت کو جاننا ہوتا ہے پاکستان کی افواج کے متعلق معلومات اسرائیل کو دی جاتی ہیں جو بالواسطہ بھارت تک پہنچ جاتی ہیں. پہلے تک یہ انتہائی حساس فریضہ پاکستانی شہری انجام دیتے تھے پھر یہ کام پاکستان کے سیاستدانوں نے لے لیا اور بجاے دشمن کے راز لینے کے اپنے راز دشمن کو دینے لگ گئے
اب ہمیں دوران ٹریننگ والی رہائش گاہ پر لایا گیا وہاں پر ایک بار پھر مشن کی بریفنگ اور احتیاطی تدابیر دہرائی گئی. سپہر 3بجے ہمیں 2 پرائیویٹ کاروں میں لاہور اسٹیشن پہنچا دیا گیا بصیر پور براستہ قصور کے ٹکٹ پہلے ہی خریدے جا چکے تھے ہم سب ایک سیکنڈ کلاس کے ایک ڈبے میں بلکل اجنبی بن داخل ہوے ہمارے دو سئنرز بھی ہمارے ساتھ تھے ایک دوسرے سے بات چیت کی قطعاً ممانعت تھی رات تقریباً ساڑھے گیارہ بجے ہم بصیر پور پہنچے. وہاں ایک سیف ہاؤس میں ہمارے کھانے اور سونے کا بندوبست تھا اسی سیف ہاؤس کے ایک کونے سے چیخ وپکار کی آوازیں آ رہی تھی ہمارے سئنرز نے بتایا کہ کچھ بھارتی ہیں جو بارڈر کراس کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں ان سے پوچھ گچھ جاری ہے
سیف ہاؤس کے مستقل رہائشی نہایت خاموشی سے ہماری ضروریات کی تمام چیزیں ہمیں پہنچا رہے تھے ہم نے جب بھی کوئی سوال کیا وہ مسکرا کر خاموش ہوجاتے تھے دوسری صبح 9 بجے ہم نے بصیر پور سے کوچ کیا تین جیپوں میں ہمارا قافلہ روانہ ہوا ہمیں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ہمیں کہاں لے جایا جا رہا ہے سفر مسلسل کبھی نہروں کی پٹریوں اور کبھی کچی پکی اونچی نیچی سڑکوں پر جاری رہا شام کے قریب ہم خیموں کے ایک پڑاؤ کے قریب پہنچے جہاں پر پاکستانی بارڈر فورس کے جوانوں نے ہمارا خیر مقدم کیا وہاں ہمارے سئنرز نے ہمیں بتایا کہ ہم بہاولنگر میں منڈی صادق گنج کے نذدیک بھارتی بارڈر سے صرف 200 میٹر کی دوری پر ہیں
وہاں 2 اجنبی دیہاتیوں سے ہمیں ملایا گیا دس روز دلی میں ٹھیک 11 بجے دن ان میں سے ایک نے مجھے ملنا تھا میٹنگ پلیس مجھے سمجھا دی گئی یہ دونوں دیہاتی لاہور کے ایک معروف سمگلر کے کارندے تھے اور ہفتے میں دو بار یہ اسی راستے سے بارڈر کراس کر کے بھارت میں داخل ہوتے اور الائچی کاجو اور پان وغیرہ لاتے تھے پاکستان میں انہیں بارڈر کراس کرنے اور واپس آنے کی سہولت دی گئی تھی جس کے عوض وہ پہلے سے گئے ہوے گروپس کی ڈاک لاتے اور لے جاتے تھے یہ دو اجنبی ہمارے گروپس سے واقف تھے اور ان کو یہ ڈیوٹی سونپی گئی تھی کہ وہ ہمیں وقت مقررہ پر بارڈر کراس کرائیں اور قریبی بھارتی ریلوے اسٹیشن ہنو مان تک پہنچا دیں
انہیں پیسے دیئے گئے کہ ہنو مان گڑھ سے اجمیر شریف تک کے ٹکٹ خرید کر ہمیں دیں. اور فوراً واپس ہندوستان بارڈر کے قریبی گاؤں مرزا پور پہنچ جائیں جہاں دو افراد انہیں ملینگے او اگلی شام تک ان کے ہمراہ رہیں گے ادھر ہمیں علیحدگی میں ہنومان گڑھ سے بٹھنڈہ کے ٹکٹ خریدنے کا کہا گیا کہ مخالف سمت میں جانے والی گاڑی میں سوار ہوں جو اجمیر شریف جانے والی گاڑی سی 15 یا 20 منٹ پہلے ہی آ جاتی تھی یہ احتیاط در احتیاطی تدابیر ہماری حفاظت کے لیے کی گئی تھی ہم سے گھڑیاں بھی لے لی گئی تھی اور مجھے صرف ایک گھڑی دی گئی جو بھارت میں بھی مہیا تھی اور اس وقت اسکی قیمت بھارت میں تقریباً 300 روپیہ تھی
رات کا کھانا ساڑھے آٹھ بجے تک کھا لیا گیا کھانے کے فوراً بعد ہمیں ایک لمبا سیاہ انڈر ویئر اور ایک فل بازووں والی بنیان پہننے کو دی گئی ہم نے بوٹ بھی اتار لیے اور اپنے کپڑوں کے ہمراہ رکھ لیے. اب ہمارے سئنرز ہمارے ساتھ خوش گپیوں میں لگ گئی لیکن صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ محض ہماری ٹینشن دور کرنے کے لیے تھا ورنہ ان کے چہروں پر بھی پریشانی صاف عیاں تھی.
ان دنوں جنگ کیوجہ سے بھارت اور پاکستان سیز فائر کی حالت میں تھے پاسپورٹ اور ویزا نام کی کوئی شے نہ تھی بارڈر پر دونوں طرف افواج کا اجتماع تھا عین ممکن تھا کہ بارڈر کراسنگ کے دوران ہی دشمن ہمیں گولیوں سے بھون دیتے ہمیں بتایا گیا تھا کہ بھارت نے بارڈر کے قریب BRB نہر کی طرح ایک نہر بنائی ہوئی ہے جو خاصی گہری ہے
پاکستان کیطرف وہ ڈھلوان میں ہے جبکہ بھارت کیطرف وہ بلکل سیدھی ہے ہمیں وہ نہر تیر کر بغیر آواز کیے پار کرنی تھی اسکی ٹریننگ ہمیں خوب اچھی طرح دی گئی تھی ہنومان گڑھ اسٹیشن بارڈر سے 8 میل کے فاصلے پر تھا راست میں دو تین گاؤں پڑتے تھے ہمیں ان گاؤں سے دور رہ کر کتوں کے بھوکنے سے بچتے ہوے دوڑ کر جانا تھا اب مجھے احساس ہوا کہ دوران ٹریننگ ہمیں 11 میل مسلسل بھاگنے کی ٹریننگ کیوں دی گئی تھی اسٹیشن کے قریت پہنچ کر ہمیں انڈر وئیر اور بنیان اتار کر عام شہریوں جیسا لباس پہن لینا تھا اور دونوں گائیڈز کو فوراً واپس بھیجنا تھا ہمیں بٹھنڈہ تک دو الگ الگ ڈبوں میں بیٹھنا تھا اور ایک دوسرے سے بات چیت ہرگز نہیں کرنی تھی
یہ آخری ہدایات تھیں جو ہمیں دی گئی اس کے فورا بعد گولیاں چلنے کی آوازیں آنے لگی
ہماری بارڈر فورس نے پڑاؤ سے دونوں طرف تقریباً آدھا کلو میٹر کے فاصلے سے دشمن پر فائرنگ کرنا شروع کر دی اور دشمن کو بھی جوابی فائرنگ کرنے پر مصروف کر دیا یہ فائرنگ ہمارے لیے گرین سگنل تھی سنیئرز نے ہمیں گلے لگایا ان کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھی ان کے آخری الفاظ جو ہمارے لیے تھے
Wish you God's help and best of luck.
اپنی ذہنی کیفیت کے بارے میں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ بارڈر کراس کرنے اور ٹریننگ کی اہمیت ایک جیسی تھی گھر اور فیملی کا تصور ذہن سے بلکل نکل چکا تھا ہمیں ایک ایک 30 بور کا ریوالور اور 100، 100 سو گولیاں واٹر پروف پیکٹ میں دی گئی تھی جنہیں ہم نے اپنے بیگوں میں رکھ لیا تھا بیگوں کو نہر عبور کرنے کے دوران سر پر باندھنے کے لیے رسیاں بھی دی گئی تھیں سوا دس بجے ہمیں بارڈر کی جانب بڑھنے کا حکم ملا ہم سب کو اللہ حافظ کہتے ہوئے اپنے گائیڈرز کے ساتھ بارڈر کیطرف چل دئیے
یہ تقریباً 100 میٹر کا علاقہ پانی کیچڑ اور سرکنڈوں سے بھرا ہوا تھا ہم نے تقریباً 80 میٹر کا علاقہ بھاگتے ہوئے طے کیا اور بقیہ کرالنگ کرتے ہوئے کیچر اور سرکنڈوں سے ہمارے جسم مکمل مٹی اور خراشوں سے بھر گے تھے ہمیں کچھ پتہ نہ چلا کہ ہم کب بھارت میں داخل ہوئے کیوں کہ سرحد کا کوئی نشان نہ تھا ہم بس آگے ہی آگے بڑھتے جا رہے تھے کہ گائیڈ نے کیا کہ نہر آ گئ ہے ہم ایک ایک کر کے نہر میں اتر گئے فائرنگ کی آواز ابھی تک آ رہی تھی نہر کو ہم کھڑی پوزیشن میں تیر کر عبور کیا بھارت کیطرف سے کنارہ کھڑا اور 90 ڈگری کے زاویہ پر تھا اس پر چڑھنے میں خاصی دقت پیش آئی اس کنارے پر پٹری بھی تھی جس پر بی ایس ایف کی گاڑیاں گشت کرتی رہتی تھی ہمیں جلد از جلد اس پٹری کو عبور کر کے کھیتوں کی طرف دوڑنا تھا احتیاطی تدابیر کے مطابق پٹری پر ہمیں الٹے پاؤں پر چلنا تھا تاکہ ہمارے پاؤں کے نشان کو دیکھتے ہوئے کوئی یہی سمجھے کہ کوئی بھارت سے پاکستان کیطرف گیا ہے پٹری سے الٹے قدموں سے چلتے ہوئے کھیتوں کی طرف بھاگے. وہاں بھی ڈیڑھے بنے ہوے ہیں ان ڈیڑوں سے ہم کو دور رہ کر گزرنا تھا اس لیے کئی بار ہمیں کبھی دائیں اور کبھی بائیں دور تک جانے کے بعد اپنی سمت کو درست رکھنی پڑ رہی تھی تاکہ ان ڈیڑوں میں موجود پالتو کتے ہمیں دیکھ بھونکنے نہ لگ جائیں.
الغرض ایک جگہ دس منٹ رک کر پھر اپنا سفر شروع کر دیا ہنو مان گڑھ اسٹیشن کے تقریباً آدھا کلومیٹر پہلے پھر ایک نہر آئی ہم نہر میں کود پڑے اور اپنے جسم کی اچھی طرح صفائی کی اور باہر نکل کر سویلین لباس پہن لیے. گائیڈرز نے ہمارے لیے ٹکٹ لینے جانا تھا لیکن میں نے انہیں روک دیا اور کہا کہ پیسے تم رکھ لو اور اندھیرے اندھیرے ہی اس گاوں میں پہنچ جاؤ جہاں تمہارا انتظار کیا جا رہا ہے اس دوران میں نے اپنا ریوالور لوڈ کر لیا تھا وہ اسی وقت واپس روانہ ہو گے میں نے اپنے ایک ساتھی کو ان کے پیچھے بیھجا کہ وہ چیک کرے کہ وہ واقعی واپس جا رہے ہیں یا کہیں راست میں چھپ گے ہیں کیونکہ اسمگلرز سے ہر بات ممکن ہے میں نے اپنے ساتھی کو کہا کہ وہ بھی اپنا ریوالور لوڈ کر لے اور ان کا پیچھا کرے اگر وہ ادھر ادھر ہونے کی کوشش کریں تو ان کو گولی مار دینا
تقریباً 20 منٹ بعد میرا ساتھی واپس آیا اور اس نے بتایا کہ وہ اسی راستے سے تیزی سے بھاگتے ہوئے واپس جا رہے ہیں اسی دوران دور سے گاڑی کی وسل کی آواز سنائی دی ہم نے اسٹیشن کی راہ لی یہ کھٹمنڈو جانے والی گاڑی تھی بلکل چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن تھا ہلکا ہلکا اجالا ہونا شروع ہو گیا تھا ہم چاروں ساتھی ریلوے اسٹیشن کی دوسری جانب کھڑے ہو گے اور پانچواں ٹکٹس لینے چلا گیا گاڑی ایک یا دو منٹ رکی ہمارے ساتھی نے ٹکٹ لے کر ہمیں اشارہ دیا اور ہم دوسری جانب سے گاڑی میں سوار ہوگئے..
جاری ہے
اس قسم کی مزید پوسٹ پڑھنے کیلے اس لنک پر کلک کریں
Comments
Post a Comment