Ghazi episode 5

Image
#غازی #قسط_نمبر5#  ہوٹل پہنچ کر میں نے دروازے کو اندر سے بند کیا اور پیکٹ کھولا اسمیں 8 ورق تھے جن پر ایک طرف ہندی میں لکھا ہواتھا میں نے موم بتی جلائی اور ورق کی سادہ سائیڈ پر ہیٹ دینا شروع کر دی تو اس پر نارنجی رنگ میں لکھائی ظاہر ہو گئی 15 منٹ تک عمل کرنے پر سارے پیپروں پر لکھائی میرے سامنے تھے یہ 8 ورق ہم5 نچوں کے لیے تھے میں نے پہلا ورقہ اٹھا کر پڑھا  تو اس پر بارڈر کراس کرنے کی مبارک اور مزید حوصلہ افزائی کے لئے الفاظ اور مجھے ایک خاص مشن سونپا گیا تھا اور اسکو ارجنٹ پورا کرنے کا کہا گیا تھا اس کے علاوہ پیکٹ کی رسیو کی رسید اور اب تک کی کارکردگی کی روپوٹ اور سرسری تمام احوال لکھنے کا کہا گیا تھا اور اس کے علاوہ پیکٹ میں دس ہزار بھارتی کرنسی بھی تھی. میں پہلے سے تیار شدہ روشنائی سے دو صفحات پر مشتمل تمام معلومات لکھی. کیونکہ دوسرے دن یہ سب میں نے اپنے کونٹیکٹ کے حوالے کرنا تھا. روشنائی کا ذکر کرتا چلوں یہ سپیشل روشنائی پیاز کے پانی لہسن کے پانی اور لیموں کے رس سے بنائی جاتی تھی جو لکھ کر سوکھ جانے کے بعد اس کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا جب تک کہ اسکو آگ سے ہیٹ نہ دی جاتی

Ghazi episode 2


*غازی* 


2 قسط نمبر

کہنے کو تو میں دل کو بہت ڈھارس دیتا تھا مگر دل تھا کہ قابو میں نہیں آ رہا تھا بالآخر 1972 کے دوسرے عشرے میں میں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور ایک ماہ کا نوٹس پیریڈ پورا کر کے میں اپنی فیملی کو اپنے آبائی گاؤں میں چھوڑ کر راولپنڈی آ گیا. اور  افواج پاکستان کے نہایت حساس ترین ادارے میں کسی بھی قسم کے خطرناک کام کے لیے اپنی خدمات پیش کر دیں. ادارے کے حکام پہلے تو حیران ہوے کہ اس مایوسی کے دور میں ایک سویلین اپنے آپ کو اس طرح والنٹیر کر رہا ہے.
قریب 20 دن میرے مختلف قسم کے انٹرویو ہوتے رہے. اس دوران انہوں نے اپنے ذرائع سے میرے پورے ماضی کو کھنگال ڈالا. جب وہ پورے طور پر مطمئن ہوگئے تو انہوں نے مجھے درپیش آنے والی مشکلات اور مسائل خطرات اور پکڑے جانے کے بعد دی جانے  والی سزاؤں سے ڈرانا چاہا. وہ چاہتے تھے کہ اس ادارے کے لیے میرا کام کرنا میرا ایک وقتی جنون ہے اس لیے میں بیک آؤٹ ہو جاؤں. لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ میرا یہ جنون وقتی طور پر نہیں بلکہ اپنے قوم و ملک کے لیے کچھ کر گزرنے کا حوصلہ اور قربانی کا جذبہ مجھ میں موجودہے تو پھر مجھے باقاعدہ ادارے میں شامل کر لیا گیا اور ایک ہفتے بعد میری تربیت شروع ہو گئی.
میری تربیت کے لیے 6ماہ کی مدت مقرر کی گئی تھی. جو میں نے 4ماہ اور چند دن میں مکمل کر لی. ملکی سلامتی کی خاطر میں تربیت کی تفصیل میں نہ جا سکوں گا. مختصر صرف یہ عرض کر دوں کہ بے پناہ جسمانی مشقت اور جوڈو کراٹے  static and Mobile surveillance کے طریقے اور اگر خود دشمن کے جال میں پھنس جاؤں تو اس سے نکلنے کے طریقے اور سب سے اہم یہ کہ مجھے مکمل طور پر ایک بھارتی شہری بنا دیا گیا تھا اور ان کے طور طریقے رسم و رواج زبان اور سیاسی معاشرتی زندگی کے علاوہ بھارتی فوج کے متعلق تمام تفصیلات از بر کروا دی گئی تھیں. ان کی ٹرینوں بسوں کے اڈوں شہریوں اور شہروں صوبوں غرض کہ ہر وہ بات جو ایک پڑھے لکھے بھارتی سے توقع کی جاسکتی تھی اس طرح میرے دماغ میں بٹھا دی گئی تھی کہ میں ایک مکمل بھارتی شہری کا روپ دھار گیا اس کے تشدد اور جسمانی اور ذہنی اذیتوں کو برداشت کرنے  کی تربیت دی گئی کیونکہ میرے اساتذہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ کس حد تک اذیت برداشت کر سکتا ہوں. پھر وائرلیس oprate  کرنا چھاؤنیوں اور فوجی پڑاؤ پر حملہ کرنا معلومات کے حصول کے طریقہ کار الغرض ہر پہلو سے مجھے تیار کر دیا گیا.
 میری زندگی کی سب سے پہلی ملازمت جو سابق مشرقی پاکستان میں چٹاگانگ میں ایک چاے کی ایک مشہور کمپنی Blending  کی تھی. وہ بھارت میں مجھے اپنے کور کے لیے بہت کام آئی. میں loose tea کے ایک تاجر کے طور پر بھارتی چھاؤنی میں جا سکتا تھا. کور کے مطابق میں ممبئی میں ناگ پاڑہ کا رہائشی تھا. اور یہاں تک مکمل انتظام کر دیا گیا تھا کہ اگر کوئی میرے دئیے ہوئے ایڈریس سے کسی سے بھی پوچھے تو اسے بتا دیا جاتا تھا کہ ونود چوپڑا ( میرا کور نام) یہاں رہتا ہے اور چاے کا کاروبار کرتا ہے تربیت کا آخری حصہ پاکستانی چھاؤنیوں سے مطلوبہ معلومات حاصل کرنا تھی اور یہی میرا امتحان تھاجس میں میں نے نہ صرف مطلوبہ معلومات حاصل کیں بلکہ ان کے بعد حساس راز بھی معلوم کر کے اپنے اساتذہ کو دئیے چنانچہ مجھے گروپ لیڈر کے طور پر سلیکٹ کر لیا گیا. میرے گروپ میں چار اور ساتھی تھے جو افواج پاکستان میں مختلف کاموں کے ماہر تھے. ان وائرلیس ٹیکنیشن بلاسٹنگ ماہردوران مشن خطروں کو بھانپنے والے ہماری نگرانی کرنے والے یعنی ہم کہیں پھنس جائیں تو دشمن کو ہلاک کرنے والے وغیرہ. الغرض یہ ایک مکمل گروپ تھا بحیثیت لیڈر وہ میرا حکم ماننے کے پابند تھے اور خود اپنے فیصلے سے کوئی بھی کام کرنے کی اجازت نہ تھی مجھے ان سے الگ رہنا اور ان کی سب کی رہائش کا علم رکھنا تھا لیکن انہیں میری رہائش کا علم نہیں ہونا چاہیے تھا بھارت میں اپنے ہمدردوں سے رابطہ رکھنے کی صرف مجھے اجازت تھی غرض ہم پانچ افراد کی ایک چھوٹی سی فوج اپنے مشن کے لیے بلکل تیار تھی. اور ہمیں 24 گھنٹے کے نوٹس پر اپنے مشن پر روانہ ہونا تھا ایک بات اور کہ ہم پانچویں کو تربیت مکمل ہونے کے بعد صرف چند لمحوں کے لیے ملایا گیا تھا ایک دوسرے کے متعلق تفصیلی معلومات کسی کو نہ تھیں یہ ایسے مشنوں کے لیے بہت اہم ہوتا ہے تاکہ اگر کوئی دشمن کی گرفت میں آ بھی جاے تو تشدد برداشت نہ کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے متعلق کچھ بھی نہ بتا سکے آخری کام جو اپنے رازوں اور ساتھیوں کے لیے کیا گیا تھا کہ ہماری ایک ایک داڑھ نکال کر اس میں سائنائیڈ کی سخت پلاسٹک کی ایک ایک داڑھ لگا دی گئی تھی تاکہ جب تشدد برداشت کرنے کی ہمت نہ رہے تو داڑھ کو چبا لیا جائے. داڑھ میں سائنائیڈ ایک زہر لگا ہوتا ہے تاکہ دشمن کو راز بتا کر غدار کہلانے کی بجاے شہید ہو کر سرخرو ہونا بہتر ہے تاکہ آئندہ آنے والے لوگ اور نسلیں آپ پر فخر کر سکیں. یہ تھا ہماری تربیت کا احوال جس کی تکمیل کے بعد ہمیں بھارت میں اپنے مشن کے لیے سٹینڈ بائی کر دیا گیا تھا
 ہم جسمانی اور ذہنی طور پر اپنے مشن پر جانے کے لیے بلکل تیار تھے. سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارت اپنی 80 فیصد سے زیادہ فوج مغربی پاکستان کے بارڈر پر لے آیا تھا. انٹیلیجنس رپورٹ سے معلوم ہوا تھا کہ سابقہ مشرقی پاکستان کے بعد بھارت مغربی پاکستان کو بھی نگلنا چاہتا تھا بھارت کو اس وقت اپنی فوج سے زیادہ کیے ہوے معاہدے پر بہت غرور تھا جس کے تحت بھارت پر حملہ روس پر حملہ سمجھا جانا تھا پاکستانی افواج نے دوران جنگ ہی اسی معاہدہ کیوجہ سے دفاعی جنگ لڑی تھی اور بھارت کو اس وجہ سے موقع مل گیا تھا کہ وہ مغربی پاکستان کے دفاعی لحاظ سے کمزور پوائنٹس پر بھر پور حملہ کر کے مغربی پاکستان کے اندر داخل ہو جاے چنانچہ جنگ بندی کے  وقت مغربی پاکستان کا 5ہزار مربع میل کا علاقہ بھارت کے قبضے میں آ چکا تھا افواج پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم ہی مایوس ہو چکی تھی بعد میں افغانستان اور روس کی جنگ میں روس کو ٹکرے ٹکرے کر کے اپنی شکست کا روس سے بدلہ لے لیا تھا اور ان شاء اللہ 1971 کی جنگ کا بھی بدلہ ہم بھارت سے بھر پور طریقے سے لیں گے.
 ہمارا گروپ سٹینڈ بائی پوزیشن میں تھا کہ ہمیں 3دن کی رخصت مل گئی اور ہدایت کی گئی کہ اپنا سارا سامان اپنے اپنے گھروں میں چھوڑ آئیں. صرف جوتوں کا جو جوڑا پہنا ہوا تھا وہ اور دو ایک پینٹ شرٹ اور قمیض شلوار ساتھ لائیں. جن پر کوئی ایسا نشان نہ ہو کہ وہ ظاہر کریں کہ پاکستان کے بنے ہوے ہیں. یہ چھٹی ہماری مشن پر روانگی کا گرین سگنل تھی. مجھ سے کاغذات پر اپنے ورثاء کے نام لکھوائے گے اور اسکی تین کاپیاں کی گئی ایک کاپی مجھے دی گئی کہ یہ اپنے ورثاء کے حوالے کر دینی تھی. میرے باقی 4ساتھی باقاعدہ پہلے ہی فوجی تھے اس لیے ان کی تمام ڈیٹیل پہلے ہی ان کے پاس تھی. یہ کاغذات ہمارے مشن پر موت کی صورت میں ہمارے ورثاء کے لیے چیک اور سہولیات دینے پر مبنی تھے. اس وقت میری والدہ حیات تھی اور ایک بیوی اور چند ماہ کا لڑکا تھا. میں نے وصیت میں پہلے اپنی والدہ کا نام لکھوایا اور پھر بیوی اور بچے کا اور 3 روزہ چھٹی پر گھر کی طرف روانہ ہو گیا. گھر پہنچ کر میں نے خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کی میری بیوی تو کچھ سمجھ نہ سکی مگر میری والدہ نے میری اندرونی کیفیت کو کچھ کچھ بھانپ لیا. میں نے اپنے گھر والوں کو بھی نہ بتایا کہ میں کیا کر رہا ہوں اور کہاں جا رہا ہوں کیونکہ انہیں تو صرف یہ علم تھا کہ میں لاہور میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں جاب کرتا ہوں
روانگی سے چند لمحے قبل میں نے اپنی والدہ کو ایک لفافہ دیا جس میں وہ کاغذات تھے اور کہا کہ انہیں بہت سنبھال کر رکھنا ہے والد مرحوم کی قبر پر اس دن میں گھنٹوں بیٹھا رہا. روانگی سے قبل اپنی والدہ اور بیوی بچے سے ایسی ملا جیسے زندگی میں دوبارہ کبھی نہ مل سکوں اس وقت جو میری اندرونی کیفیت تھی اس کا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں.
میں خود کو نارمل رکھنے کی بھر پور کوشش کی اور والدہ اور بیوی کو بتایا کہ میں چند ماہ کے لیے کاروبار کے سلسلے میں کمپنی کی طرف سے سری لنکا جا رہا ہوں. اس لیے خطوط ہوسکتا ہے نہ بھیج سکوں ہاں کمپنی میں فون کر کے آپ لوگوں کی خیریت دریافت کر لیا کروں گا. اور کمپنی ہر ماہ  آپ لوگوں کو تنخواہ اور میری خیریت کا بتاتے رہیں گے یہ سب باتیں میں نے اپنے سئنرز کی ہدایات کے مطابق کی تھی گھر والوں کو یہ انتظام عجیب لگا وہ کوئی سوال بھی کر سکتے تھے. لیکن میں نے انہیں سوال کرنے کا موقع ہی نہ دیا اور شام 7بجے ریلوے اسٹیشن چلا گیا کیونکہ صبح 8بجے مجھے لاہور روپوٹ کرنی تھی. لاہور میں ہمیں آفس سے آنکھوں پر پٹی باندھ کر لے جایا گیا جب پٹی کھلی تو ہم ایک ہال میں موجود تھےہال میں بہت سی کرسیاں رکھی ہوئی تھی اور ہمارے سئنرز ہم سے پہلے ہی ان کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے. اتنے میں ایک سفید شلوار قمیض میں ملبوس ایک جوان شخص ہال میں داخل ہوا ہمارے سئنرز نے پاؤں جوڑ کر اسے سلیوٹ کیا. پھر اس نے ہم سب سے فرداً فرداً مصافحہ کیا اور ہمیں ٹریننگ میں کامیاب پر مبارک باد اور کہا کہ جس مشن پر آپ 5 لوگوں کو بھیجا جا رہا ہے وہ افواج پاکستان اور  ہم سب کے لیے بہت اہم ہے اور اس مشن کی کامیابی پر ہمیں بہت سی مدد مل سکتی ہے.
لیکن یاد رکھیں ہمارا دشمن بہت مکار ہے پکڑے جانے کی صورت میں وہ راز جاننے کے لیے آپ لوگوں کو پرتعیش زندگی جواں لڑکیوں اور عیش و عشرت کی آفر کرے گا. اس لیے آپ لوگوں کو دو میں سے ایک راستہ چننا ہو گا غداری یا پھر شہادت غداری کی صورت میں وہ آپ سے تمام راز لے کر تمہیں پھر بھی زندہ نہیں چھوڑے گا اس لیے کوشش کرنا کہ شہادت کو ترجیح دینا.
ایک واقعہ جو انہوں نے بیان کیا اس کو مختصر بیان کیے دیتا ہوں
سلطان ٹیپو کی شہادت کے بعد انگریزوں نے میر صادق کو جاگیر اور سات پشتوں تک کو وظیفے سے نوازا تھا جب اس کے ورثاء وظیفہ لینے عدالت میں جایا کرتے تو آج کی طرح جس طرح عدالت میں پکارا جاتا ہے اسی طرح پہلے بھی پکارا جاتا تھا میر صادق کے ورثاء کو عدالت میں وظیفہ لینے کے لیے جب آواز لگائی جاتی تو کہا جاتا تھا کہ میر صادق غدار کے ورثاء حاضر ہوں اور وظیفہ لے لیں. یعنی جس طرح شہادت پشتوں تک چلتی ہے اسی طرح غداری بھی پشتوں تک چلتی ہے .
1857 کی جنگ آزادی سے لے کر 1947 قیام پاکستان تک برصغیر میں انگریز افسروں کی تعداد کبھی بھی 2500 سے زیادہ نہیں رہی. یہ 2500 افسران برصغیر میں ہندو ملازموں کی تعداد 80 فیصد تھی کے ساتھ مل کر برصغیر میں ٹھاٹھ سے حکومت کرتے رہے.
انہوں نے ایک مثال دی کہ بہادر شاہ ظفر کو اس کے سسر نے گرفتار کروایا مگر جب تقسیم ہند ہوا تو اس کا پورا خاندان نقل و مکانی کر کے کراچی آ کر آباد ہو گیا. اور تجارت کو اپنا پیشہ بنایا. مگر اس کی نسل نے کبھی بھی اپنے جد امجد کا نام نہیں لیا اگر کسی کو ان کے اس کرتوت کا پتہ چل جاے تو ان سے پوچھنے پر وہ ہاتھ جوڑ کر کہتے ہیں کہ یہ بات صرف اپنے تک محدود رکھنا اسکی تشہیر نہیں کرنا. بارڈر کراس کرنے کے بعد اگر تم پر ایسا موقع آ جاے تو یہ تمہاری صوابدید پر منحصر ہو گا کہ تم کس چیز غداری یا شہادت کو ترجیح دیتے ہو . اتنا کہہ کر وہ ہم پانچوں سے بغل گیر ہوا اور ہمارے مشن کی کامیابی کے لیے دعا کی. اور کمرے سے باہر چلے گئے.
اس کے جانے کے بعد ہماری مکمل تلاشی لی گئی ہمارے سگریٹ بٹوے اور دیگر سامان ہم سے لے لیا گیا اور اس کے بدلے بھارتی کرنسی سگریٹ اور بٹوے ہمیں دے دئیے گئے ہمارے ائر بیگ ہمسے لے کر ہمیں ایسے بیگ دئیے گئے جن پر میڈ ان انڈیا لکھا ہوا تھا ہمیں سائنائیڈ سے بھری داڑھیں دو ڈاکٹروں نے لگائی. اور پھر مجھے ایک کاغذ دیا گیا جس پر دہلی آگرہ اور بمبئی کے کچھ پتے درج تھے یہ ان لوگوں کے پتے تھے جن سے ہمیں بھارت میں کرنسی اور دیگر معلومات مل سکتی تھیں. مجھے یہ اڈریس زبانی یاد کرنے تھے اور جس مشن پر  ہمکو بھیجا جا رہا تھا وہ کوئی ایک مشن نہیں تھا بلکہ بہت سے مشنز تھے جن کو پورا کرنا تھا کہ اس میں کوئی بھی کام جو ہمارے ملکی مفاد کے لیے بہتر ہو ہمیں کرنے کی اجازت دی گئی تھی. ایک خاص مشن میرے سپرد کیا گیا تھا اور وہ تھا کہ دہلی آرمی ہیڈ کوارٹر میں آرمی چیف کے کسی ملازم کو پلانٹ کرنا. اس وقت ٹائپنگ ہوا کرتی تھی اور کاربن پیپر سے اسکی کاپیاں بنائی جاتی تھی کاربن کو ایک دو بار ٹائپ کیا جاے تو اس پر ٹائپ کی تحریر آسانی سے پڑھی جا سکتی ہے اگر اس طرح استعمال شدہ کاربن پیپر استعمال کے بعد ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاے اور بعد میں صفائی کرنے والا وہ پیپر اٹھا کر ہمیں دے دے تو ہمیں اس سے بہت سی معلومات مل سکتی تھیں.....
جاری ہے

بقیہ کل 3 نمبر قسط میں پڑھیں
اس قسم‌ کی اور اچھی اچھی تحریر پڑھنے کیلے اس لنک پر کلک کریں

Comments

Popular posts from this blog

Ehsas emergency program

Ghazi episode 1